شب سرور نئی داستاں وصال و فراق
نہ فکر سود و زیاں درمیاں وصال و فراق
میں اس سے بات کروں بھی تو کس حوالے سے
کہ مستعار مکاں میں کہاں وصال و فراق
اسی کے نام پہ جیتے ہیں اور مرتے ہیں
یہی ہے قصۂ آشفتگاں وصال و فراق
وہ کہہ گیا ہے کہ آؤں گا منتظر رہیو
میں مبتلائے یقین و گماں وصال و فراق
وہ پڑھ رہا تھا بڑے غور سے لہو کی سرشت
ہر ایک بوند کا سر نہاں وصال و فراق
ہوائے صبح نہ جانے کہاں کہاں لے جائے
شب مراد شب درمیاں وصال و فراق
میں اس کو ہاتھ لگاتا بھی کس طرح صہباؔ
عجیب کشمکش جاں اذاں وصال و فراق

غزل
شب سرور نئی داستاں وصال و فراق
صہبا وحید