EN हिंदी
شب فراق کے دم توڑے ہوئے لمحو | شیح شیری
shab-e-firaq ke dam toDe hue lamho

غزل

شب فراق کے دم توڑے ہوئے لمحو

مستحسن خیال

;

شب فراق کے دم توڑے ہوئے لمحو
مری طرح سے ستاروں کا نوحہ سنتے ہو؟

دیار جاں میں بگولوں کا رقص جاری ہے
مرے اداس خیالو کواڑ مت کھولو

گئے دنوں کی محبت یہ دن ملال کے ہیں
نئے دنوں کی محبت کو طاق پر رکھ دو

کبھی ملو تو سہی بر بنائے مطلب ہی
ہمیں بھی بخش دو سرمایۂ غرور اب تو

سنا ہے کلیاں چٹکتی ہیں مسکرانے سے
یہ تجربہ ہی سہی مسکرا کے دیکھو تو

تمام رات جو لڑتا رہا اندھیروں سے
خیالؔ اب وہ ستارہ بھی گم ہوا دیکھو