EN हिंदी
شب چراغ کر مجھ کو اے خدا اندھیرے میں | شیح شیری
shab-charagh kar mujhko ai KHuda andhere mein

غزل

شب چراغ کر مجھ کو اے خدا اندھیرے میں

شبنم رومانی

;

شب چراغ کر مجھ کو اے خدا اندھیرے میں
سانپ بن کے ڈستا ہے راستہ اندھیرے میں

آئینہ اجالا ہے ذات کا حوالہ ہے
پھر بھی کس نے دیکھا ہے آئینہ اندھیرے میں

لیکن اب بھی روشن ہیں خواب میری آنکھوں کے
چاند تو کہیں جا کر سو گیا اندھیرے میں

جب بھی بند کیں آنکھیں کھل گئیں مری آنکھیں
روشنی سے گزرا ہوں بارہا اندھیرے میں

آدمی کی قسمت بھی آگہی کی قسمت بھی
ابتدا اندھیرے سے انتہا اندھیرے میں

اپنے علم پر شبنمؔ ناز کیا کرے کوئی
اک قدم اجالے میں دوسرا اندھیرے میں