شب چراغ کر مجھ کو اے خدا اندھیرے میں
سانپ بن کے ڈستا ہے راستہ اندھیرے میں
آئینہ اجالا ہے ذات کا حوالہ ہے
پھر بھی کس نے دیکھا ہے آئینہ اندھیرے میں
لیکن اب بھی روشن ہیں خواب میری آنکھوں کے
چاند تو کہیں جا کر سو گیا اندھیرے میں
جب بھی بند کیں آنکھیں کھل گئیں مری آنکھیں
روشنی سے گزرا ہوں بارہا اندھیرے میں
آدمی کی قسمت بھی آگہی کی قسمت بھی
ابتدا اندھیرے سے انتہا اندھیرے میں
اپنے علم پر شبنمؔ ناز کیا کرے کوئی
اک قدم اجالے میں دوسرا اندھیرے میں
غزل
شب چراغ کر مجھ کو اے خدا اندھیرے میں
شبنم رومانی