EN हिंदी
شاید کہ مر گیا مرے اندر کا آدمی | شیح شیری
shayad ki mar gaya mere andar ka aadmi

غزل

شاید کہ مر گیا مرے اندر کا آدمی

خالد ؔمحمود

;

شاید کہ مر گیا مرے اندر کا آدمی
آنکھیں دکھا رہا ہے برابر کا آدمی

سورج ستارے کوہ و سمندر فلک زمیں
سب ایک کر چکا ہے یہ گز بھر کا آدمی

آواز آئی پیچھے پلٹ کر تو دیکھیے
پیچھے پلٹ کے دیکھا تو پتھر کا آدمی

اس گھر کا ٹیلیفون ابھی جاگ جائے گا
صاحب کو لے کے چل دیا دفتر کا آدمی

ذرے سے کم بساط پہ سورج نگاہیاں
خالدؔ بھی اپنا ہے تو مقدر کا آدمی