شاید کبھی ایسا ہو کچھ فلم سا کر جاؤں
کچھ قتل کروں چن کر اور بعد میں مر جاؤں
میں بے سر و ساماں اس بازار تمدن میں
ناموس بزرگوں کا نیلام نہ کر جاؤں
دنیائے سکوں آگیں پھر زیر قدم ہوگی
سانسوں کے سمندر سے بس پار اتر جاؤں
ممکن ہے کہ مل جائے وہ آخری سیما تک
کیا اے دل پژمردہ میں اس کی ڈگر جاؤں
یہ آخری خواہش بھی شاید کہ نہ پوری ہو
نمناک ہوں کچھ آنکھیں جب چھوڑ کے گھر جاؤں
احساس دلا جاؤں یاروں کی سماعت کو
جھٹکا سا لگے بن کر اک ایسی خبر جاؤں
ہر شخص کے ہونٹوں پر اپنے ہی مسائل ہیں
بہتر ہے یہی ارشدؔ چپ چاپ گزر جاؤں
غزل
شاید کبھی ایسا ہو کچھ فلم سا کر جاؤں
رزاق ارشد