شامل تو مرے جسم میں سانسوں کی طرح ہے
یہ یاد بھی سوکھے ہوئے پھولوں کی طرح ہے
دل جس کا نہیں حرف محبت سے شناسا
وہ زندگی ویران مزاروں کی طرح ہے
فطرت میں ہے دولت کے کھلونوں سے بہلنا
اک دوست مرا شہر میں بچوں کی طرح ہے
ہر رات چراغاں سا رہا کرتا ہے گھر میں
اک زخم مرے دل میں ستاروں کی طرح ہے
مت کھولیو مجھ پر کبھی احساں کے دریچے
غیرت مجھے پیاری تری یادوں کی طرح ہے
پتھر سدا ذلت کے تعاقب میں رہیں گے
کوتاہئ گفتار گناہوں کی طرح ہے

غزل
شامل تو مرے جسم میں سانسوں کی طرح ہے
رئیس صدیقی