EN हिंदी
شام کا غم بھی جفاکار اداسی میری | شیح شیری
sham ka gham bhi jafakar udasi meri

غزل

شام کا غم بھی جفاکار اداسی میری

مونیکا شرما سارتھی

;

شام کا غم بھی جفاکار اداسی میری
زخم دے جاتی ہے ہر بار اداسی میری

جب بھی ہونٹوں کو ہنسایا یہی پوچھا خود سے
کیوں ہے خوشیوں پہ کڑا بار اداسی میری

میرے سائے سے لپٹنے کو ترستی رہتی
بن گئی میری طلب گار اداسی میری

گہرے تنہائی کے عالم میں سلا جاتی ہے
کتنی بن جاتی ہے خوں خوار اداسی میری

میرے اشکوں سے بہی بن کے لہو دل کا یوں
ہو کٹیلی کوئی تلوار اداسی میری

سارتھیؔ لٹ نہ کہیں جائے عقد بھی تجھ سے
مجھ سے کہتی ہے کئی بار اداسی میری