EN हिंदी
شام غم یاد ہے کب شمع جلی یاد نہیں | شیح شیری
sham-e-gham yaad hai kab shama jali yaad nahin

غزل

شام غم یاد ہے کب شمع جلی یاد نہیں

احمد مشتاق

;

شام غم یاد ہے کب شمع جلی یاد نہیں
کب وہ رخصت ہوئے کب رات ڈھلی یاد نہیں

دل سے بہتے ہوئے پانی کی صدا گزری تھی
کب دھندلکا ہوا کب ناؤ چلی یاد نہیں

ٹھنڈے موسم میں پکارا کوئی ہم آتے ہیں
جس میں ہم کھیل رہے تھے وہ گلی یاد نہیں

ان مضافات میں چھپ چھپ کے ہوا چلتی تھی
کیسے کھلتی تھی محبت کی کلی یاد نہیں

جسم و جاں ڈوب گئے خواب فراموشی میں
اب کوئی بات بری ہو کہ بھلی یاد نہیں