شام غم یاد ہے کب شمع جلی یاد نہیں
کب وہ رخصت ہوئے کب رات ڈھلی یاد نہیں
دل سے بہتے ہوئے پانی کی صدا گزری تھی
کب دھندلکا ہوا کب ناؤ چلی یاد نہیں
ٹھنڈے موسم میں پکارا کوئی ہم آتے ہیں
جس میں ہم کھیل رہے تھے وہ گلی یاد نہیں
ان مضافات میں چھپ چھپ کے ہوا چلتی تھی
کیسے کھلتی تھی محبت کی کلی یاد نہیں
جسم و جاں ڈوب گئے خواب فراموشی میں
اب کوئی بات بری ہو کہ بھلی یاد نہیں
غزل
شام غم یاد ہے کب شمع جلی یاد نہیں
احمد مشتاق