شام غم کی سحر نہ ہو جائے
ہر خوشی مختصر نہ ہو جائے
آہ دل پر اثر نہ ہو جائے
ان کی بھی آنکھ تر نہ ہو جائے
راز الفت سنبھال کر رکھئے
ہر کوئی با خبر نہ ہو جائے
ہجر میں دل کا دل شکن عالم
جو ادھر ہے ادھر نہ ہو جائے
ذکر تکمیل آرزو چھیڑو
رات یوں ہی بسر نہ ہو جائے
مجھ پہ اتنا کرم نہ فرماؤ
میرا غم معتبر نہ ہو جائے

غزل
شام غم کی سحر نہ ہو جائے
شو رتن لال برق پونچھوی