شام فراق صبح درخشاں ہے آج کل
ہر اشک جیسے نیر تاباں ہے آج کل
یا رب متاع درد محبت کی خیر ہو
پھر چشم ناز سلسلہ جنباں ہے آج کل
اللہ رے جذب عشق کی پندار حسن دوست
مجروح التفات گریزاں ہے آج کل
برپا ہے چشم ناز میں پھر حشر التفات
سچ مچ جفا پہ کوئی پشیماں ہے آج کل
لو دے اٹھے ہیں دیدہ و دل فرط شوق سے
محراب زندگی میں چراغاں ہے آج کل

غزل
شام فراق صبح درخشاں ہے آج کل
رضا مراد آبادی