EN हिंदी
شام ڈھلتے ہی ترے دھیان میں آ جاتا ہوں | شیح شیری
sham Dhalte hi tere dhyan mein aa jata hun

غزل

شام ڈھلتے ہی ترے دھیان میں آ جاتا ہوں

سلیم فگار

;

شام ڈھلتے ہی ترے دھیان میں آ جاتا ہوں
یاد کرتی ہو تو اک آن میں آ جاتا ہوں

رات ہے جشن مری روح کی آزادی کا
صبح پھر جسم کے زندان میں آ جاتا ہوں

میں نہیں کچھ بھی مگر تیری نظر پڑتے ہی
کوزہ گر میں کسی امکان میں آ جاتا ہوں

تجھ سے لکھے ہیں مرے نقش سوئے خاک یہاں
آسماں سے اسی احسان میں آ جاتا ہوں

دیکھ کر مجھ کو چمکتی ہیں نگاہیں تیری
شکر ہے میں تری پہچان میں آ جاتا ہوں

شام بجھتا ہوا سورج ہے جنازہ دن کا
میں بھی چند اشک لئے لان میں آ جاتا ہوں