شام ڈھلتے ہی ترے دھیان میں آ جاتا ہوں
یاد کرتی ہو تو اک آن میں آ جاتا ہوں
رات ہے جشن مری روح کی آزادی کا
صبح پھر جسم کے زندان میں آ جاتا ہوں
میں نہیں کچھ بھی مگر تیری نظر پڑتے ہی
کوزہ گر میں کسی امکان میں آ جاتا ہوں
تجھ سے لکھے ہیں مرے نقش سوئے خاک یہاں
آسماں سے اسی احسان میں آ جاتا ہوں
دیکھ کر مجھ کو چمکتی ہیں نگاہیں تیری
شکر ہے میں تری پہچان میں آ جاتا ہوں
شام بجھتا ہوا سورج ہے جنازہ دن کا
میں بھی چند اشک لئے لان میں آ جاتا ہوں
غزل
شام ڈھلتے ہی ترے دھیان میں آ جاتا ہوں
سلیم فگار