EN हिंदी
شاخوں پر ابہام کے پیکر لٹک رہے ہیں | شیح شیری
shaKHon par ibham ke paikar laTak rahe hain

غزل

شاخوں پر ابہام کے پیکر لٹک رہے ہیں

مظفر حنفی

;

شاخوں پر ابہام کے پیکر لٹک رہے ہیں
لفظوں کے جنگل میں معنی بھٹک رہے ہیں

پاکیزہ اخلاق مسلط ہے جذبے پر
خواہش کی آنکھوں میں کانٹے کھٹک رہے ہیں

ملہاریں گاتے ہیں مینڈک تال کنارے
آسمان پر بھورے بادل مٹک رہے ہیں

مطلع پر یادوں کی پو سی پھوٹ رہی ہے
من پر کالے سانپ اپنے پھن پٹک رہے ہیں

خوشبو کی چوری کا داغ لگا ہے ان پر
سب گل بوٹے اپنے دامن جھٹک رہے ہیں

ایسی جدت سے ہم کو کیا مل جائے گا
پڑھنے والے ہر مصرع پر اٹک رہے ہیں