شاخچہ خاک گلستاں میں پڑا ہے یارو
اس سے احسان بہاراں نہ اٹھا ہے یارو
تم نے پوچھا ہے نہ کچھ ہم نے کہا ہے یارو
حادثہ ہم پہ جو گزرا ہے تو کیا ہے یارو
کر گیا خاک ہمیں رخصت گل کا منظر
زخم نظارہ مگر اب بھی ہرا ہے یارو
مریم شام کھلے بال پھر آتی دیکھو
پھر مسیحا کوئی سولی پہ چڑھا ہے یارو
رات اندھیری سہی مایوس نہیں نور سے ہم
اشک پلکوں پہ ابھی کانپ رہا ہے یارو
اب مری شب مرے اشکوں سے رہے گی روشن
شام کے وقت دیا میرا بجھا ہے یارو
سامنے آتے ہو اب اجنبیوں کی صورت
یہ بھی شاید کوئی یاری کی ادا ہے یارو
پاؤں ہیں خاک پہ خورشید پہ سایہ اس کا
حشمیؔ کھوج میں یہ کس کی چلا ہے یارو

غزل
شاخچہ خاک گلستاں میں پڑا ہے یارو
جلیل حشمی