شاخ تنکے کو لکھا شعلے کو جھونکا لکھ دیا
میں غزل کہنے لگا لیکن قصیدہ لکھ دیا
پڑھتی رہتی ہیں خلاؤں کو مری بینائیاں
تو نے ان اوراق پر میرے خدا کیا لکھ دیا
کس کی سانسیں میرے ہاتھوں کی لکیریں بن گئیں
کس نے میرے آئنے میں اپنا چہرہ لکھ دیا
کس کی خوشبو سے مہک اٹھیں مری تنہائیاں
کس نے ویرانے میں قسمت کا تماشا لکھ دیا
میں جہاں ڈوبا وہاں بنیاد ساحل پڑ گئی
آخری سانسوں نے پانی پر جزیرہ لکھ دیا
زندگی کو اڑتے لمحوں کے کفن میں ڈھانپ کر
سنگ مستقبل پہ میں نے اپنا کتبہ لکھ دیا
یوں مکمل کی ہے نجمیؔ میں نے اپنی داستاں
جس جگہ بھی ربط ٹوٹا نام اس کا لکھ دیا
غزل
شاخ تنکے کو لکھا شعلے کو جھونکا لکھ دیا
معین نجمی