EN हिंदी
شاخ سے پتے پرندے آشیاں سے جا چکے | شیح شیری
shaKH se patte parinde aashiyan se ja chuke

غزل

شاخ سے پتے پرندے آشیاں سے جا چکے

خاقان خاور

;

شاخ سے پتے پرندے آشیاں سے جا چکے
کیسی رت ہے سب مکیں اپنے مکاں سے جا چکے

میں خلاؤں میں بھٹکنے کو اکیلا رہ گیا
میرے ساتھی چاند تارے آسماں پر جا چکے

خشک پتے اڑتے پھرتے ہیں یہاں اب جا بہ جا
رنگ و نکہت کے مسافر گلستاں تک جا چکے

تیرے قابو میں تھے جب تیرے تھے اب تیرے نہیں
اڑ کے اب الفاظ کے پنچھی زباں سے جا چکے

کہہ رہے ہیں درد میں ڈوبے ہوئے دیوار و در
ڈھونڈتے پھرتے ہو جن کو تم یہاں سے جا چکے

زندگی میں دیکھنے تھے یہ بھی دن خاورؔ ہمیں
جو کبھی بچھڑے نہ تھے وہم و گماں سے جا چکے