شاخ سے پتے پرندے آشیاں سے جا چکے
کیسی رت ہے سب مکیں اپنے مکاں سے جا چکے
میں خلاؤں میں بھٹکنے کو اکیلا رہ گیا
میرے ساتھی چاند تارے آسماں پر جا چکے
خشک پتے اڑتے پھرتے ہیں یہاں اب جا بہ جا
رنگ و نکہت کے مسافر گلستاں تک جا چکے
تیرے قابو میں تھے جب تیرے تھے اب تیرے نہیں
اڑ کے اب الفاظ کے پنچھی زباں سے جا چکے
کہہ رہے ہیں درد میں ڈوبے ہوئے دیوار و در
ڈھونڈتے پھرتے ہو جن کو تم یہاں سے جا چکے
زندگی میں دیکھنے تھے یہ بھی دن خاورؔ ہمیں
جو کبھی بچھڑے نہ تھے وہم و گماں سے جا چکے
غزل
شاخ سے پتے پرندے آشیاں سے جا چکے
خاقان خاور