EN हिंदी
شاخ پر پھول کھل گئے ہیں نا | شیح شیری
shaKH par phul khil gae hain na

غزل

شاخ پر پھول کھل گئے ہیں نا

روی کمار

;

شاخ پر پھول کھل گئے ہیں نا
تم کو پیغام مل گئے ہیں نا

اک آواز حق اٹھی دیکھا
اور ایوان ہل گئے ہیں نا

وہ تو منہ میں زبان رکھتے تھے
ان کے بھی ہونٹ سل گئے ہیں نا

تم نگینہ سمجھ رہے تھے اسے
کانچ سے ہاتھ چھل گئے ہیں نا

جو جہاں ہے وہاں نہیں ملتا
لوگ مرکز سے ہل گئے ہیں نا