EN हिंदी
شاخ میری نہ اب شجر میرا | شیح شیری
shaKH meri na ab shajar mera

غزل

شاخ میری نہ اب شجر میرا

شین کاف نظام

;

شاخ میری نہ اب شجر میرا
اختیار اب ہے آنکھ بھر میرا

آئنے میں تو عکس ہے لیکن
مار ڈالے گا مجھ کو ڈر میرا

کون جانے کہاں کہاں جاؤں
ہم سفر اب کے ہے سفر میرا

آسمانوں پہ تو رہا خاموش
گھر گیا تیرے نام پر میرا

میں نے سجدے میں سر جھکایا تھا
لے گئے سر اتار کر میرا

تجھ کو سب سے جدا بنا دوں گا
چھین مت حرف کا ہنر میرا

دشت و صحرا اجاڑ آیا ہوں
ڈھونڈھتا ہوں کہاں ہے گھر میرا

دست و بازو لیے زباں مت لے
آخری پر تو مت کتر میرا

مو بہ مو کچھ سمٹ رہا ہے نظامؔ
اور چرچا ہے در بہ در میرا