شاخ گلشن پہ تھا جو ٹھکانہ گیا
اس پرندے کا تو آب و دانہ گیا
آندھیوں کی ہے زد پر گھروندے یہاں
یعنی ہمدردیوں کا زمانہ گیا
زرد موسم کی آمد نے بدلا سماں
سبزۂ گلستاں کا زمانہ گیا
میری حسرت نے اوڑھی جو لفظی قبا
میرے خاموش لب کا ترانہ گیا
شمع بزم طرب رات تنہا رہی
کوئی پروانہ آخر کیوں آ نہ گیا
یوں ہوئی شاخ سے ہجرت طائراں
مرثیہ رہ گیا چہچہانا گیا
یوں نہ کمزور رشتے کی بنیاد تھی
آتے جاتے یوں ہی آنا جانا گیا
غزل
شاخ گلشن پہ تھا جو ٹھکانہ گیا
محمد اظہر شمس