شاہکار حسن فطرت سازشوں میں بٹ گیا
آئینہ ٹوٹا تو چہرہ آئنوں میں بٹ گیا
رات مقتل میں خدا جانے وہ کس کا قتل تھا
جو تبرک بن کے سارے قاتلوں میں بٹ گیا
میں کتاب زندگی کا ایک لفظ مستقل
وقت نے تشریح کی تو حاشیوں میں بٹ گیا
لاکھ اب دنیا منائے اس کا جشن ارتکاز
وہ تو ریزہ ریزہ سارے دوستوں میں بٹ گیا
لمحہ لمحہ جوڑ کر اوروں کو صدیاں بخش دیں
خود صدی کا قتل کر کے ساعتوں میں بٹ گیا
اس کے بارے میں یہ اندازہ بھی لگ سکتا نہیں
اس نے کتنے غم سہے کتنے دکھوں میں بٹ گیا
چند قطرے اس کی آنکھوں میں ملے آذرؔ مگر
وہ سمندر بن کے سب پیاسے گھروں میں بٹ گیا

غزل
شاہکار حسن فطرت سازشوں میں بٹ گیا
مشتاق آذر فریدی