سیر شکمی کا بھوک سے ہے ملاپ
روح کی تشنگی سنبھالیے آپ
رقص فرما ہوئی وہ سیم تنی
بے زری کی بہار نے دی تھاپ
شہر والے ہیں کھولتا لاوا
گلی کوچوں سے اٹھ رہی ہے بھاپ
نا مرادی کے بڑھتے سلسلے کو
نئے پیمانہ ستم سے ناپ
اس کو نمرود کا تقاضا جان
آتش حسن کو نہ بیٹھ کے تاپ
خامشی تو علاج درد نہیں
بات بنتی نہیں ہے آپ سے آپ
تو بھی کہہ دے جو تیرے جی میں ہے
سن رہا ہوں میں ہر اناپ شناپ
کوئی آیا نہ گوشۂ دل تک
شاہ رہ پر سنی تھی پاؤں کی چاپ
یوں ہی شاید مزاج بدلے ترا
میرے اشعار اپنے نام سے چھاپ
وقت، موسم نظرؔ نگاہ میں رکھ
کس نے تجھ سے کہا یہ راگ الاپ

غزل
سیر شکمی کا بھوک سے ہے ملاپ
قیوم نظر