EN हिंदी
سیال تصور ہے ابلنے کی طرح کا | شیح شیری
sayyal tasawwur hai ubalne ki tarah ka

غزل

سیال تصور ہے ابلنے کی طرح کا

شمیم قاسمی

;

سیال تصور ہے ابلنے کی طرح کا
اک عکس سے سو عکس میں ڈھلنے کی طرح کا

اب سانحۂ ہجر مسلسل کا مزہ بھی
ہے آتش تخلیق میں جلنے کی طرح کا

سب قید ہوا جاتا ہے تنگنائے غزل میں
منظر پس منظر ہے بدلنے کی طرح کا

اپنی ہی طرح کا ہے قدم راہ طلب میں
گرنے کی طرح کا نہ سنبھلنے کی طرح کا

سمجھو کہ قریب آ گئی عرفان کی منزل
جینے میں مزہ آئے جو مرنے کی طرح کا

یہ سوچ کے میں گوشۂ دل وا نہیں کرتا
اس شوخ کا ملنا ہے بچھڑنے کی طرح کا

کچھ ایسے ہی موسم میں اسے آنا تھا شاید
ہے موسم دل پھولنے پھلنے کی طرح کا

یہ سوچ کے میں گوشۂ دل وا نہیں کرتا
اس شوخ کا ملنا ہے بچھڑنے کی طرح کا

کچھ ایسے ہی موسم میں اسے آنا تھا شاید
ہے موسم دل پھولنے پھلنے کی طرح کا