صیاد آ گئے ہیں سبھی ایک گھات پر
اٹھنے لگی ہیں انگلیاں اب میری ذات پر
موسم کا لہجہ سرد ہے یادیں بھی تلخ ہیں
تنہائیوں کا بوجھ ہے ہر سمت رات پر
کیوں آج میری یاد بھی آئی نہیں تجھے
کل تک تو میرا تذکرہ تھا بات بات پر
گھٹتے تھے ساتھ ساتھ کبھی تتلیوں کے پر
اب کیوں خفا خفا سے ہو اک میرے ساتھ پر
کیوں دل یہ بیقرار ہے صاحب مجھے بتا
گر رکھ دیا ہے ہاتھ کو وشمہؔ کے ہاتھ پر
غزل
صیاد آ گئے ہیں سبھی ایک گھات پر
وشمہ خان وشمہ