سوال دید پہ تیوری چڑھائی جاتی ہے
مجال دید پہ بجلی گرائی جاتی ہے
خدا بخیر کرے ضبط شوق کا انجام
نقاب میری نظر سے اٹھائی جاتی ہے
اسی کو جلوۂ ایمان عشق کہتے ہیں
ہجوم یاس میں بھی آس پائی جاتی ہے
اب آ گئے ہو تو اور اک ذرا ٹھہر جاؤ
ابھی ابھی مری میت اٹھائی جاتی ہے
مرے قیاس کو اپنی تلاش میں کھو کر
مرے حواس کو دنیا دکھائی جاتی ہے
غزل
سوال دید پہ تیوری چڑھائی جاتی ہے
فانی بدایونی