EN हिंदी
سواد منظر خواب پریشاں کون دیکھے گا | شیح شیری
sawad-e-manzar-e-KHwab-e-pareshan kaun dekhega

غزل

سواد منظر خواب پریشاں کون دیکھے گا

جنبش خیرآبادی

;

سواد منظر خواب پریشاں کون دیکھے گا
اسیر زلف ہو کر شام ہجراں کون دیکھے گا

گلوں کی دل کشی فصل بہاراں کون دیکھے گا
نہ ہوں گے جب ہمیں رنگ گلستاں کون دیکھے گا

شب غم تم نہ آئے غم نہیں غم ہے تو یہ غم ہے
مرے دامن پہ اشکوں کا چراغاں کون دیکھے گا

گداز شمع کی صورت جواز غم کرو پیدا
یہ پروانو تمہارا سوز پنہاں کون دیکھے گا

قیامت میں لبوں پر شکوہ‌ ہائے پر جفا لا کر
تری معصوم فطرت کو پشیماں کون دیکھے گا

یقیناً شوق کے پردوں کو بھی آنکھوں سے اٹھنا ہے
نہیں تو حشر میں کل روئے جاناں کون دیکھے گا

گریباں پھاڑ کر جنبشؔ چلو پھولوں کی محفل میں
یہ صحرا ہے یہاں حال پریشاں کون دیکھے گا