EN हिंदी
سودا تھا بلائے جوش پر رات | شیح شیری
sauda tha bala-e-josh par raat

غزل

سودا تھا بلائے جوش پر رات

مومن خاں مومن

;

سودا تھا بلائے جوش پر رات
بستر پر بچھائے نشتر رات

بگڑے تھے یہاں وہ آن کر رات
بے طور بنی تھی جان پر رات

ہم تا سحر آپ میں نہیں تھے
کیا جانے رہے وہ کس کے گھر رات

افسانہ سمجھ کے سو گئے وہ
کام آئی فغان بے اثر رات

آئینے میں ہو نہ موم جادو
سوتے نہیں اب وہ تا سحر رات

تارے آنکھیں جھپک رہے تھے
تھا بام پہ کون جلوہ گر رات

اندھیرا پڑا زمانے میں ہائے
نے دن کو ہے مہر نے قمر رات

اس لیل و نہار غم نے مارا
ہے روز سے سیاہ تر رات

کیا پوچھو ہو منکر و نکیر آہ
بگڑے جو وہ طعن غیر پر رات

یہ بات بڑھی کہ مر گئے ہم
موت آئی تھی قصہ مختصر رات

اس گھر میں ہے عیش خلد مومنؔ
کیا جانے کہاں ہے دن کدھر رات