سودائے گیسوئے سیۂ یار ہو گیا
آزاد تھا جو دل سو گرفتار ہو گیا
مجلس میں جس طرف تری ترچھی نظر پڑی
اک تیر تھا کہ توڑ کے صف پار ہو گیا
سچ ہے یہ حرص کرتی ہے انسان کو خراب
غم کھایا اس قدر کہ میں بیمار ہو گیا
دل کو قرار ہے نہ تو جاں کو قرار ہے
یہ عشق ہے الٰہی کہ آزار ہو گیا
انبائے جنس سے جو اٹھائیں اذیتیں
صورت سے آدمی کی میں بیزار ہو گیا
سیر چمن کو یار جو آیا تو دیکھنا
آنکھوں میں عندلیب کے گل خار ہو گیا
احقرؔ گلہ رہا نہ عداوت کا غیر کی
جب یار قتل کرنے پہ تیار ہو گیا

غزل
سودائے گیسوئے سیۂ یار ہو گیا
رادھے شیام رستوگی احقر