سو الجھنوں کے بیچ گزارا گیا مجھے
جب بھی تری طلب میں سنوارا گیا مجھے
کم ہو سکا نہ پھر بھی مرا مرتبہ اگر
پستی میں آسماں سے اتارا گیا مجھے
سلجھی نہ ایک بار کہیں زلف زندگی
گرچہ ہزار بار سنوارا گیا مجھے
اپنے مفاد کے لیے میدان جنگ میں
جیتا گیا کبھی کبھی ہارا گیا مجھے
دھویا گیا بدن مرا اشکوں کے آب سے
میرے لہو کے ساتھ نکھارا گیا مجھے
پھر بھی رواں دواں ہوں میں موج حیات میں
سو بار گرچہ دہر میں مارا گیا مجھے
رکھ کر چلوں گا جان ہتھیلی پہ میں نبیلؔ
مقتل سے جس گھڑی بھی پکارا گیا مجھے

غزل
سو الجھنوں کے بیچ گزارا گیا مجھے
نبیل احمد نبیل