EN हिंदी
ستائش جن کا پیشہ ہو گیا ہے | شیح شیری
sataish jin ka pesha ho gaya hai

غزل

ستائش جن کا پیشہ ہو گیا ہے

اشتیاق طالب

;

ستائش جن کا پیشہ ہو گیا ہے
انہیں شہرت کا چسکا ہو گیا ہے

مجھے کیا تیرا سودا ہو گیا ہے
جنوں کا میرے چرچا ہو گیا ہے

نظر آتی نہیں سڑکوں پہ لاشیں
امیر شہر اندھا ہو گیا ہے

تری یادوں سے میرا دل تھا روشن
ترے ملنے سے تنہا ہو گیا ہے

ترے آنچل کے اڑنے سے فضا میں
گلوں کا رنگ چوکھا ہو گیا ہے

تمہارا نام کیا آیا لبوں پر
کہ اک طوفان برپا ہو گیا ہے

بہت ہم کو تھا طالب ناز جس پر
وہی اب دل کسی کا ہو گیا ہے