ستا رہی ہے بہت مچھلیوں کی باس مجھے
بلا رہا ہے سمندر پھر اپنے پاس مجھے
ہوس کا شیشۂ نازک ہوں پھوٹ جاؤں گا
نہ مار کھینچ کے اس طرح سنگ یاس مجھے
میں قید میں کبھی دیوار و در کی رہ نہ سکا
نہ آ سکا کبھی شہروں کا رنگ راس مجھے
میں تیرے جسم کے دریا کو پی چکا ہوں بہت
ستا رہی ہے پھر اب کیوں بدن کی پیاس مجھے
مرے بدن میں چھپا ہے سمندروں کا فسوں
جلا سکے گی بھلا کیا یہ خشک گھاس مجھے
گرے گا ٹوٹ کے سر پر یہ آسمان کبھی
ڈرائے رکھتا ہے ہر دم مرا قیاس مجھے
جھلس رہا ہوں میں صدیوں سے غم کے صحرا میں
مگر ہے ابر گریزاں کی پھر بھی آس مجھے
غزل
ستا رہی ہے بہت مچھلیوں کی باس مجھے
احتشام اختر