EN हिंदी
سرو گلشن پر سخن اس قد کا بالا ہو گیا | شیح شیری
sarw-e-gulshan par suKHan us qad ka baala ho gaya

غزل

سرو گلشن پر سخن اس قد کا بالا ہو گیا

سراج اورنگ آبادی

;

سرو گلشن پر سخن اس قد کا بالا ہو گیا
ہر نہال اس شرم سیں جنگل کا پالا ہو گیا

آوتا ہے یہ بہا ہو آنکھ سیں دامن تلک
طفل اشک اس آج کل میں کیا جوالا ہو گیا

جب سیں اس الماس کی پہنچی کا ہے آنسو میں عکس
تب سیں ہر تار فلک ہیروں کا مالا ہو گیا

دل جگر کی پھکڑیاں آہوں کے تاروں میں پرو
بیٹھ کر دوکان غم پر پھول والا ہو گیا

اشک باراں آہ بجلی اشک کی کالی گھٹا
ماہ رو بن کس طرح کا برشگالا ہو گیا

باغ میں سرما تھا اور تھی یاد دل دار دو رنگ
مجھ کوں ہر برگ گل رعنا دوشالا ہو گیا

نیند سیں کھل گئیں مری آنکھیں سو دیکھا یار کوں
یا اندھارا اس قدر تھا یا اجالا ہو گیا

ہجر کی مٹھ میں تصور اس غزالی چشم کا
عشق کے بیراگیوں کو مرگ چھالا ہو گیا

بھر رہا ہے بس کہ دود آہ میرا اے سراجؔ
آسماں جیوں پردۂ فانوس کالا ہو گیا