EN हिंदी
سرسبز موسموں کا اثر لے گیا کوئی | شیح شیری
sarsabz mausamon ka asar le gaya koi

غزل

سرسبز موسموں کا اثر لے گیا کوئی

سلطان اختر

;

سرسبز موسموں کا اثر لے گیا کوئی
تھوڑی سی چھاؤں دے کے شجر لے گیا کوئی

میرا دفاع میرا ہنر لے گیا کوئی
دستار جب بچائی تو سر لے گیا کوئی

کیا کیا نہ شوق دید تھے آنکھوں میں خیمہ زن
وہ روبرو ہوئے تو نظر لے گیا کوئی

یوں بھی ہوا ہے جشن بہاراں کے نام پر
شاخیں تراش ڈالیں شجر لے گیا کوئی

آنکھوں کے آر پار جہالت کی دھوپ ہے
سر سے ردائے علم و ہنر لے گیا کوئی

لہروں میں اضطراب نہ موجوں میں پیچ و تاب
دریائے دل سے میرے بھنور لے گیا کوئی

اخترؔ نگار خانۂ دل دیدنی ہے اب
دیواریں توڑ دی گئیں در لے گیا کوئی