سروں پہ دھوپ تو آنکھوں میں خواب پتھر کے
وہ سنگ دل تھے سو اترے عذاب پتھر کے
ہوائے کوچۂ جاناں سے حال پوچھا تھا
اسی خطا پہ ملے ہیں جواب پتھر کے
یہ کون سنگ صفت پانیوں میں اترا ہے
اٹھے ہیں آب رواں سے حباب پتھر کے
ہوائیں بانجھ زمیں بے ثمر نظر ویراں
کہ اب کے برسے ہوں جیسے سحاب پتھر کے
تلاش منزل جاناں میں رہنے والوں کو
خدا ملے بھی تو خانہ خراب پتھر کے
یہ کیسا موسم گل ہے یہ کیسا گلشن ہے
روش روش میں کھلے ہیں گلاب پتھر کے
کوئی وہاں غم انساں کی بات کیا جانے
صفیؔ جہاں پہ ہوں عزت مآب پتھر کے

غزل
سروں پہ دھوپ تو آنکھوں میں خواب پتھر کے
سید صفی حسن