سرشک غم سمٹ کر دل کے ارمانوں کو لے ڈوبے
یہ صاحب خانہ اپنے ساتھ مہمانوں کو لے ڈوبے
دکھا کر خواب خوش آئندہ فردوس خیالی کے
نئے شداد ہم معصوم انسانوں کو لے ڈوبے
بناتے رہ گئے تنظیم نو کے برہمن خاکے
بتوں کے حوصلے تب تک صنم خانوں کو لے ڈوبے
نہ جانے کہہ دیا شبنم نے کیا آنکھوں ہی آنکھوں میں
کہ غنچے تھرتھرائے اور گلستانوں کو لے ڈوبے
خمار چشم ساقی اس قدر توبہ شکن توبہ
یہ دو ساغر نہ جانے کتنے پیمانوں کو لے ڈوبے
سحر ہونے سے پہلے ایسی اک انگڑائی اے ساقی
جو پیمانوں سے ابھرے اور مے خانوں کو لے ڈوبے
فضاؤں کو امید رنگ و بو تھی جن سے اے ارشدؔ
وہ غنچے آج کھلتے ہی گلستانوں کو لے ڈوبے
غزل
سرشک غم سمٹ کر دل کے ارمانوں کو لے ڈوبے
ارشد صدیقی