سرحد گل سے نکل کر ہم جدا ہو جائیں گے
کل تمہاری قید خوشبو سے رہا ہو جائیں گے
ذہن میں احساس رخصت ہی نہ ہوگا شام تک
بڑھتے بڑھتے دن کے لمحے یوں ہوا ہو جائیں گے
چھوڑ جاؤ دامن امروز میں بھی کچھ نہ کچھ
ورنہ تم سے طائر فردا خفا ہو جائیں گے
جب نہ ہو کار نفس تو پھر ہمارے ساتھ ساتھ
یہ زمین و آسماں دونوں فنا ہو جائیں گے
سامنے ہے ساعت آخر کا ان دیکھا عذاب
عمر بھر کہتے رہے اب بے نوا ہو جائیں گے

غزل
سرحد گل سے نکل کر ہم جدا ہو جائیں گے
حمید الماس