سردی و گرمی و برسات میں آ جاتا ہے
مجھ سے ملنے وہ مضافات میں آ جاتا ہے
فصل گل آنے پہ ہو جاتی ہے ویرانی دور
دل خرابے سے خرابات میں آ جاتا ہے
کبھی دانستہ ادا ہو کبھی نا دانستہ
نام تیرا مری ہر بات میں آ جاتا ہے
جسم کی نشو و نما صورت اشیائے زمیں
روئے خوباں فلکیات میں آ جاتا ہے
عشق کا صبر و تحمل ہی سے قائم ہے وقار
نالہ فریاد خرافات میں آ جاتا ہے
خدمت خلق سے ہوتی ہے خدا کی خدمت
عشق مخلوق عبادات میں آ جاتا ہے
بندہ ہو جاتا ہے جب خوگر مشکل عابدؔ
ذائقہ تلخئ حالات میں آ جاتا ہے

غزل
سردی و گرمی و برسات میں آ جاتا ہے
محمد عابد علی عابد