EN हिंदी
سردی و گرمی و برسات میں آ جاتا ہے | شیح شیری
sardi-o-garmi-o-barsat mein aa jata hai

غزل

سردی و گرمی و برسات میں آ جاتا ہے

محمد عابد علی عابد

;

سردی و گرمی و برسات میں آ جاتا ہے
مجھ سے ملنے وہ مضافات میں آ جاتا ہے

فصل گل آنے پہ ہو جاتی ہے ویرانی دور
دل خرابے سے خرابات میں آ جاتا ہے

کبھی دانستہ ادا ہو کبھی نا دانستہ
نام تیرا مری ہر بات میں آ جاتا ہے

جسم کی نشو و نما صورت اشیائے زمیں
روئے خوباں فلکیات میں آ جاتا ہے

عشق کا صبر و تحمل ہی سے قائم ہے وقار
نالہ فریاد خرافات میں آ جاتا ہے

خدمت خلق سے ہوتی ہے خدا کی خدمت
عشق مخلوق عبادات میں آ جاتا ہے

بندہ ہو جاتا ہے جب خوگر مشکل عابدؔ
ذائقہ تلخئ حالات میں آ جاتا ہے