سرد سناٹوں کی سب سرگوشیاں لے جاؤں گا
میں جہاں بھی جاؤں گا دل کی زباں لے جاؤں گا
شہر چھوڑوں گا تو روئیں گی ملوں کی چمنیاں
دیکھنا اک روز میں سارا دھواں لے جاؤں گا
وہ جہاں چاہے چلا جائے یہ اس کا اختیار
سوچنا یہ ہے کہ میں خود کو کہاں لے جاؤں گا
سطح دریا رقص میں ہے آج مجھ کو دیکھ کر
آج میں اس پار اپنا کارواں لے جاؤں گا
وہ اگر دو چار قطروں سے نوازے گا تو کیا
ایک اک قطرے میں بحر بیکراں لے جاؤں گا
منظروں کو کیا خبر ہوگی کہ ان کے واسطے
قربتیں تقسیم کر کے دوریاں لے جاؤں گا
جن اندھیروں سے تمہیں ہر وقت وحشت ہے خیال
ان اندھیروں تک تمہاری داستاں لے جاؤں گا

غزل
سرد سناٹوں کی سب سرگوشیاں لے جاؤں گا
چندر بھان خیال