سراب زیست میں سمٹا ہوا ہوں
سمندر ہوں مگر قطرہ نما ہوں
خدا سے مل کے خود میں آ گیا ہوں
اب آئینے کو سجدہ کر رہا ہوں
تمہیں بھی دوست اپنا جانتا ہوں
بڑی خوش فہمیوں میں مبتلا ہوں
جنوں ہوں یا خرد کی انتہا ہوں
نہ سمجھا آج تک خود بھی میں کیا ہوں
حقیقت کو فسانہ کیسے کہہ دوں
فسانے کو حقیقت کہہ چکا ہوں
زمانہ مجھ میں خود کو دیکھتا ہے
ہزاروں صورتوں کا آئنہ ہوں
غزل
سراب زیست میں سمٹا ہوا ہوں
مختار ہاشمی