EN हिंदी
سر اٹھایا مذہبی دیوار پر پٹکا ہوا | شیح شیری
sar uThaya mazhabi diwar par paTka hua

غزل

سر اٹھایا مذہبی دیوار پر پٹکا ہوا

ذیشان الٰہی

;

سر اٹھایا مذہبی دیوار پر پٹکا ہوا
راہ پر آنے لگا دل راہ سے بھٹکا ہوا

رس کشی کی دعوتیں دیتے رہے تازہ گلاب
جھاڑیوں میں تھا مگر تتلی کا پر اٹکا ہوا

تذکرہ ہونے لگا جب آستیں کے سانپ کا
پاس ہی احساس مجھ کو سرسراہٹ کا ہوا

تشنۂ دیدار میں ہی تو نہیں ہوں ان دنوں
اس کے گھر کے آئنے کا بھی ہے منہ لٹکا ہوا

اجنبی ماحول میں کھو جانے کا ڈر ہے تو کیا
تھام لوں دامن ترا میں بارہا جھٹکا ہوا