سر اٹھایا مذہبی دیوار پر پٹکا ہوا
راہ پر آنے لگا دل راہ سے بھٹکا ہوا
رس کشی کی دعوتیں دیتے رہے تازہ گلاب
جھاڑیوں میں تھا مگر تتلی کا پر اٹکا ہوا
تذکرہ ہونے لگا جب آستیں کے سانپ کا
پاس ہی احساس مجھ کو سرسراہٹ کا ہوا
تشنۂ دیدار میں ہی تو نہیں ہوں ان دنوں
اس کے گھر کے آئنے کا بھی ہے منہ لٹکا ہوا
اجنبی ماحول میں کھو جانے کا ڈر ہے تو کیا
تھام لوں دامن ترا میں بارہا جھٹکا ہوا
غزل
سر اٹھایا مذہبی دیوار پر پٹکا ہوا
ذیشان الٰہی