EN हिंदी
سر تا بہ قدم خون کا جب غازہ لگا ہے | شیح شیری
sar-ta-ba-qadam KHun ka jab ghaza laga hai

غزل

سر تا بہ قدم خون کا جب غازہ لگا ہے

حزیں لدھیانوی

;

سر تا بہ قدم خون کا جب غازہ لگا ہے
تب زخم کی گہرائی کا اندازہ لگا ہے

یہ رات کا جنگل یہ خموشی یہ اندھیرا
پتہ بھی جو کھڑکا ہے تو آوازہ لگا ہے

معلوم نہیں میرا کھلا دشت کہاں ہے
صحرا کا خلا بھی مجھے دروازہ لگا ہے

احسان یہ کچھ کم تو نہیں گل بدنوں کا
جو زخم ہے سینے پہ گل تازہ لگا ہے

یکجا ہوئے یادوں کے امڈتے ہوئے پیکر
پھر منتشر اپنا مجھے شیرازہ لگا ہے