سر سے اترے نہیں پھول منزل کی دھن ہم سفر بات سن
راہ میں خار آئیں تو تلووں سے چن ہم سفر بات سن
دھوپ میں تو سفر سخت دشوار ہے بے شجر راہ کا
سر کی خاطر کوئی سوچ سایہ ہی بن ہم سفر بات سن
رابطہ اپنا زرخیز مٹی سے رکھ اور سر سبز رہ
کھا گیا کتنے سوکھے درختوں کو گھن ہم سفر بات سن
کچھ بتا دل کہ دلی سے کس لکھنؤ کی طرف جا بسیں
کون بستی ہے جس پر برستا ہے ہن ہم سفر بات سن
ہر قدم پر امیر اس طرح ٹھہرنا سوچنا کس لیے
وقت چھلنی ہے اور اس میں پانی نہ پن ہم سفر بات سن

غزل
سر سے اترے نہیں پھول منزل کی دھن ہم سفر بات سن
رؤف امیر