سر پھری پاگل ہوا کا تیز جھونکا آئے گا
حسرتوں کے خشک پتوں کو اڑا لے جائے گا
دودھیا آکاش میں کس کو صدا دیتا ہے تو
تیرے ماضی کا پرندہ اب نہ واپس آئے گا
چھوٹی چھوٹی خواہشوں کا قتل ہوتے دیکھ کر
عمر کا احساس رخ پر گرد بن کے چھائے گا
وقت اس سے چھین لے گا خود پسندی کا غرور
ہاں یقیناً وہ خدا بن کر بہت پچھتائے گا
وہ ہے سرتاپا مجسم اک فرانسیسی شراب
نشہ بن کر جسم اس کا ذہن پر بھی چھائے گا
خواہشوں کے جنگلوں میں لذتوں کے پیڑ ہیں
جن کے سائے میں مسافر دیر تک سستائے گا
آپ اپنی آگ میں ہم ہاتھ تاپیں گے ادیبؔ
جب دسمبر ساتھ اپنے برف باری لائے گا
غزل
سر پھری پاگل ہوا کا تیز جھونکا آئے گا
کرشن ادیب