EN हिंदी
سر پہ سورج ہو مگر سایہ نہ ہو ایسا نہ تھا | شیح شیری
sar pe suraj ho magar saya na ho aisa na tha

غزل

سر پہ سورج ہو مگر سایہ نہ ہو ایسا نہ تھا

عطا عابدی

;

سر پہ سورج ہو مگر سایہ نہ ہو ایسا نہ تھا
پہلے بھی تنہا تھا لیکن اس قدر تنہا نہ تھا

وہ تو یہ کہیے غم دوراں نے رکھ لی آبرو
ورنہ دل کی بات تھی کچھ کھیل بچوں کا نہ تھا

بچ کے طوفاں سے نکل آیا تو حیرانی ہے کیوں
گو سفینہ ڈوبتا تھا حوصلہ ٹوٹا نہ تھا

آپ آئے تو یقیں کرنا پڑا ورنہ یہاں
رات کو سورج کبھی افلاک پر نکلا نہ تھا

شہر دلی آئینہ خانہ ہے لیکن اے عطاؔ
جال تو خوش فہمیوں کا آپ کو بننا نہ تھا