سر پہ سورج ہو مگر سایہ نہ ہو ایسا نہ تھا
پہلے بھی تنہا تھا لیکن اس قدر تنہا نہ تھا
وہ تو یہ کہیے غم دوراں نے رکھ لی آبرو
ورنہ دل کی بات تھی کچھ کھیل بچوں کا نہ تھا
بچ کے طوفاں سے نکل آیا تو حیرانی ہے کیوں
گو سفینہ ڈوبتا تھا حوصلہ ٹوٹا نہ تھا
آپ آئے تو یقیں کرنا پڑا ورنہ یہاں
رات کو سورج کبھی افلاک پر نکلا نہ تھا
شہر دلی آئینہ خانہ ہے لیکن اے عطاؔ
جال تو خوش فہمیوں کا آپ کو بننا نہ تھا
غزل
سر پہ سورج ہو مگر سایہ نہ ہو ایسا نہ تھا
عطا عابدی