سر پہ سجنے کو جو تیار ہے میرے اندر
گرد آلود سی دستار ہے میرے اندر
جس کے مر جانے کا احساس بنا رہتا ہے
مجھ سے بڑھ کر کوئی بیمار ہے میرے اندر
روز اشکوں کی نئی فصل اگا دیتا ہے
ایک بوڑھا سا زمیندار ہے میرے اندر
کتنا گھنگھور اندھیرا ہے مری رگ رگ میں
اس قدر روشنی درکار ہے میرے اندر
دب کے مر جاؤں گا اک روز میں اپنے نیچے
ایک گرتی ہوئی دیوار ہے میرے اندر
کون دیتا ہے یہ ہر وقت گواہی میری
کون یہ میرا طرف دار ہے میرے اندر
میرے لکھے ہوئے ہر لفظ کو جھٹلاتا ہے
مجھ سے بڑھ کر کوئی فن کار ہے میرے اندر
غزل
سر پہ سجنے کو جو تیار ہے میرے اندر
لیاقت جعفری