EN हिंदी
سر پر دکھ کا تاج سہانا لگتا ہے | شیح شیری
sar par dukh ka taj suhana lagta hai

غزل

سر پر دکھ کا تاج سہانا لگتا ہے

یوسف جمال

;

سر پر دکھ کا تاج سہانا لگتا ہے
میرا چہرہ کیا شاہانا لگتا ہے

جب میں کچا پھل تھا تو محفوظ تھا میں
اب جو پکا تو مجھ پہ نشانہ لگتا ہے

شہر دل کے خواب کی کیا تعبیر کروں
کبھی نیا یہ کبھی پرانا لگتا ہے

ہاتھوں میں کشکول لیے تو دے نہ صدا
بہروں کا تو یہ کاشانہ لگتا ہے

آئینے میں دیکھ کے یہ محسوس ہوا
تیرا چہرہ کیوں بیگانہ لگتا ہے