سر پر دکھ کا تاج سہانا لگتا ہے
میرا چہرہ کیا شاہانا لگتا ہے
جب میں کچا پھل تھا تو محفوظ تھا میں
اب جو پکا تو مجھ پہ نشانہ لگتا ہے
شہر دل کے خواب کی کیا تعبیر کروں
کبھی نیا یہ کبھی پرانا لگتا ہے
ہاتھوں میں کشکول لیے تو دے نہ صدا
بہروں کا تو یہ کاشانہ لگتا ہے
آئینے میں دیکھ کے یہ محسوس ہوا
تیرا چہرہ کیوں بیگانہ لگتا ہے

غزل
سر پر دکھ کا تاج سہانا لگتا ہے
یوسف جمال