سرنگوں دل کی طرح دست دعا ہو بھی چکے
سلسلے جن کے جدا تھے وہ جدا ہو بھی چکے
دشت میں آیا نہیں ناقۂ محمل بر دوش
نقش کچھ صورت نقش کف پا ہو بھی چکے
نخل امید رہا پھر بھی نمو سے محروم
جب کہ موسم کئی آغوش کشا ہو بھی چکے
ایک بے نام سی حسرت ہے بدن میں باقی
جس قدر قرض تھے شب کے وہ ادا ہو بھی چکے
خواہش عقدہ کشائی پہ ندامت کیسی
رسم ناخن سے خفا بند قبا ہو بھی چکے
اب تو بس ایک تسلسل ہے تعلق کا دراز
امتحاں ہو بھی چکا وعدے وفا ہو بھی چکے
کب تک اے باد صبا تجھ سے توقع رکھوں
دل تمنا کا شجر ہے تو ہرا ہو بھی چکے
میں تو اک گونج میں زندہ ہوں سر بزم رضیؔ
جن کو ہونا تھا یہاں نغمہ سرا ہو بھی چکے
غزل
سرنگوں دل کی طرح دست دعا ہو بھی چکے
خواجہ رضی حیدر