EN हिंदी
سر میں جب عشق کا سودا نہ رہا | شیح شیری
sar mein jab ishq ka sauda na raha

غزل

سر میں جب عشق کا سودا نہ رہا

ناصر کاظمی

;

سر میں جب عشق کا سودا نہ رہا
کیا کہیں زیست میں کیا کیا نہ رہا

اب تو دنیا بھی وہ دنیا نہ رہی
اب ترا دھیان بھی اتنا نہ رہا

قصۂ شوق سناؤں کس کو
رازداری کا زمانا نہ رہا

زندگی جس کی تمنا میں کٹی
وہ مرے حال سے بیگانہ رہا

ڈیرے ڈالے ہیں خزاں نے چودیس
گل تو گل باغ میں کانٹا نہ رہا

دن دہاڑے یہ لہو کی ہولی
خلق کو خوف خدا کا نہ رہا

اب تو سو جاؤ ستم کے مارو
آسماں پر کوئی تارا نہ رہا