EN हिंदी
سر کٹا کر صفت شمع جو مر جاتے ہیں | شیح شیری
sar kaTa kar sifat-e-shama jo mar jate hain

غزل

سر کٹا کر صفت شمع جو مر جاتے ہیں

نادر لکھنوی

;

سر کٹا کر صفت شمع جو مر جاتے ہیں
نام روشن وہی آفاق میں کر جاتے ہیں

لاکھوں کا خون بہائیں گے وہ جب ہوں گے جواں
جو لڑکپن میں لہو دیکھ کے ڈر جاتے ہیں

جنبش تیغ نگہ کی نہیں حاجت اصلاً
کام میرا وہ اشاروں ہی میں کر جاتے ہیں

ان کو عشاق ہی کے دل کی نہیں ہے تخصیص
کوئی شیشہ ہو پری بن کے اتر جاتے ہیں

برق کی طرح سے بیتاب جو ہیں اے نادرؔ
تار گھر کس کی وہ لینے کو خبر جاتے ہیں