سر کٹا کر صفت شمع جو مر جاتے ہیں
نام روشن وہی آفاق میں کر جاتے ہیں
لاکھوں کا خون بہائیں گے وہ جب ہوں گے جواں
جو لڑکپن میں لہو دیکھ کے ڈر جاتے ہیں
جنبش تیغ نگہ کی نہیں حاجت اصلاً
کام میرا وہ اشاروں ہی میں کر جاتے ہیں
ان کو عشاق ہی کے دل کی نہیں ہے تخصیص
کوئی شیشہ ہو پری بن کے اتر جاتے ہیں
برق کی طرح سے بیتاب جو ہیں اے نادرؔ
تار گھر کس کی وہ لینے کو خبر جاتے ہیں
غزل
سر کٹا کر صفت شمع جو مر جاتے ہیں
نادر لکھنوی