سرکشی کو جب ہم نے ہم رکاب رکھنا ہے
ٹوٹنے بکھرنے کا کیا حساب رکھنا ہے
ایک ایک ساعت میں زندگی سمونی ہے
ایک ایک جذبے میں انقلاب رکھنا ہے
رات کے اندھیروں سے جنگ کرنے والوں نے
صبح کی ہتھیلی پر آفتاب رکھنا ہے
ہم پہ اس سے واجب ہیں کوششیں بغاوت کی
تم نے جس قبیلے کو کامیاب رکھنا ہے
رکھ دو ہم فقیروں کی اس کشادہ جھولی میں
اپنی بادشاہی کا جو عذاب رکھنا ہے
تم تو خود زمانے میں جبر کی علامت ہو
تم نے جبر کیا زیر احتساب رکھنا ہے
شہر بے اماں ہم نے نقد جاں لٹا کر بھی
تیرے ہر دریچے پر کل کا خواب رکھنا ہے

غزل
سرکشی کو جب ہم نے ہم رکاب رکھنا ہے
سرور ارمان