سر جھکا لیتا تھا پہلے جس کو اکثر دیکھ کر
آج پاگل ہو گیا اس کو برابر دیکھ کر
خواہشوں میں بہہ گیا کمزور مٹی کا حصار
جسم قطرے میں سمٹ آیا سمندر دیکھ کر
سوچتا ہوں رات کے اندھے سفر کے موڑ پر
چاند گھبرایا تو ہوگا خالی بستر دیکھ کر
آنکھ کھلتے ہی ہر اک لمحے میں میرا عکس تھا
میں بکھر جاتا ہوں اس کھڑکی کے باہر دیکھ کر
تو ہی اترے گا خرابوں میں فراز عرش سے
ہم تو بے حس ہو چکے ہیں اب یہ منظر دیکھ کر
چاند تکنے کی تمنا لے کے واپس آ گیا
دوسروں کے گھر کو اپنی چھت سے اوپر دیکھ کر
اب تو مڑ کر بھی کسی آواز کو سنتا نہیں
جا بہ جا بکھرے ہوئے سڑکوں پہ پتھر دیکھ کر
مجھ کو سرمدؔ اپنی بھی پہچان تک باقی نہیں
شخص اک اپنے ہی جیسا اپنے اندر دیکھ کر
غزل
سر جھکا لیتا تھا پہلے جس کو اکثر دیکھ کر
سرمد صہبائی