سر جھکا کر شاہ کے دربار میں
چھید ہم نے سو کیے دستار میں
زندگانی جیسی یہ انمول شے
کاٹ دی ہے حسرت بے کار میں
دامنوں میں بھرتے ہیں محرومیاں
لے کے خالی جیب ہم بازار میں
سرخیاں بن کر اگلتی ہے لہو
آدمیت شام کے اخبار میں
سر کو ٹکراتے رہے ہم عمر بھر
در کوئی نکلا نہیں دیوار میں
جس قدر بھرتا رہا اونچی اڑان
آدمی گرتا گیا معیار میں
سب پرندے کر گئے ہجرت نبیلؔ
کون بیٹھے سایۂ اشجار میں

غزل
سر جھکا کر شاہ کے دربار میں
نبیل احمد نبیل